۵ آذر ۱۴۰۳ |۲۳ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 25, 2024
عالم بزمان

عالم بزمان، ہندوستانی طلباء کی سلسلہ وار تجزیاتی نشستیں، قم المقدسہ میں جسکا موضوع جدید "قومی تعلیمی پالیسی" (NEP) - تعارف اور جائزہ کے تحت انعقاد کیا گیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قم المقدسہ میں عالم بزمان، ہندوستانی طلباء کی سلسلہ وار تجزیاتی نشستیں جسکا موضوع نئی قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ کا انعقاد کیا گیا جو دوسرا سال کا شمار ۱ جلسہ تھا۔ جسمیں تجزیہ کار کے حیثیت مولانا کمیل بھوجانی نے سامعین کی خدمت میں اپنی گفتگو کو بیان کیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ پالیسی ۲۹جولائی ۲۰۲۰، بی جے پی حکومت کی طرف سے رسمی طور پر قومی تعلیمی پالیسی کےعنوان سے پاس کی گئی۔ گزشتہ پالیسی ۱۹۸۶ سے کانگریس کی طرف سے شائع ہوئی تھی اور اب ۳۴سال بعد اس حکومت نےاسے بدلنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس پالیسی کے حوالے سے کچھ باتیں اور اہم تجزئے اس پروگرام میں پیس کئے گئے۔

سب سے پہلے اس پالیسی کی اہمیت کو بیا کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ پالیسی ایک ملک کے پورے تعلیمی نظام کی سمت و سو کو معین کرتی ہے۔ اس میں ایسے اہم اور کلی خطوط کو بیان کیا جاتا ہے کہ جس کے ذریعہ آنے والے چند سالوں کو لئے ملک کے بچوں اور جوانوں کی تعلیمی اور تربیتی معیاروں  کو معین کیا جاتا ہے۔ ہندوستان جہاں پر لٹریسی ریٹ ۷۵ فیصد ہے اور دوسری کئی بنیادی مشکلات جیسے اکثر سکولوں میں الیکٹریسٹی کا نہ ہونا، ہائی اسکول میں انرولمنٹ کا کم ہونا، عورتوں کی تعلیم کے حوالے سے ہندوستان کا ۱۳۵ملکوں میں ۱۲۳نمبر پر ہونا وغیرہ کو مدنظر رکھتے ہوئے اس پالیسی کی اہمیت اور بھی واضح ہوجاتی ہے۔

اس کے بعد باقی گفتگو دو اہم حصوں پر مشتمل رہی جس میں پہلے اس پالیسی کی کچھ اہم نکات کی وضاحت کی گئی اور اس کے بعد کلی طور پر موجودہ تجزیوں کو ایک تجریہ لیتے ہوئے ، یہ گفتگو اپنے نتیجہ تک پہنچی۔ 

اس پالیسی کے اہم نیکات میں سے یہ ہے کہ  اس پالیسی کو مطابق سکولوں میں اب پانچویں جماعت تک کی پڑھائی کو لوکل، ریجنل یا مادری زبان میں ہونے پر زور دیا گیا ہے اور   آٹھویں جماعت یا اسے بھی آگے تک جاری راکھنے کی تجاویز پیش کئی گئی ہے ۔ اس میں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ یہ پرائیویٹ اور پبلک اسکول دونوں کے لئے ذکر کیا گیا ہے۔

دوسرے اہم نکات میں سے یہ ہے کہ ووکیشنل کورسز کو چھٹی جماعت سے لازمی قرار دینے کی بات کی گئی ہے  اور۱۰+2  (بارہویں) کے سسٹم کو ختم کرکے ایک نیا سسٹم جو 5+3+3++4 کی بات کی گئی ہے جس میں پری اسکول کا  اضافہ اور سالانہ امتحان کو ختم کرنے کی بات کی گئی ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے حوالہ سے مقرر نے کہا کہ ملٹیپل ایگزٹ  اور ملٹی ڈسپلنری سسٹم  کی بات پالیسی نے رکھی ہے۔ 
اس پالیسی کے تجزیہ کے حوالے سے مقرر نے کہا کہ کلی طور پر تین طرح کے تجزئے اس پالیسی کے حوالہ سے شائع ہیں۔ 
پہلا یہ کہ یہ پالیسی ہندوستان کے تعلیمی نظام کو بہترین مستقبل کا حامل بنا دے گی اور لاکھوں بچوں کی زندگیوں کو تبدیل کر دے گی۔ یس تجزیہ کے حامی زیادہ تر حکومت کے سپورٹرز میں سے ہیں۔ 

دوسرا تجزیہ یہ کیا جارہا ہے کہ یہ ایک ترقی پسند پالیسی ہے لیکن موجودہ تعلیمی نظام کی حالت کے مدنظریہ بس ایک خواب ہے جو کبھی حقیقت میں تبدیل نہیں ہوسکتا ۔ اس تجزیہ کے حامیوں میں سے عام آدمی  پارٹی اور اساتذہ اور طلباء کی کئی تنظیموں ہیں جیسے دہلی یونیورسٹی کے اساتذہ کی تنظیم۔ 

تیسرا تجزیہ یہ ہے کہ یہ پالیسی صرف ایک مخملی پردہ ہے اور اسکے ذریعہ صرف سماجی شگاف اور جو پچھڑے لوگ ہیں وہ اس تعلیم کی دوڑ سے پوری طرح سے باہر ہوجائیں گے۔ اس تجزیہ کے حامی ایک دلت  دانشور کنچاا لییہ کا نام ذکر کیا جاسکتا ہے۔ 

آخر میں تجزیہ کار نے اسن تینوں تجزیوں کو تین مختلف ترازؤں  میں تولتے ہوئے کہا کہ جب ہم تعلیمی نظام کی موجودہ حالت کو دیکھتے ہیں جس میں ۱۰لاکھ  اساتذہ  کی پوسٹیں اسکولوں  میں خالی ہے ، امکانات کی شدید کمی اور کئی اسکول  خالی پڑے ہیں تو پہلا تجزیہ خود بخود غلط  ثابت ہوجاتا ہے۔ اور جب ہم اس حکومت کی تعلیمی کارکردگی پر نظر ڈالیں گے جس میں چاہے وہ تعلیمی نظام پر خرچ ہو، یا اسکالرشپز کی رقم کا کام کردینا ہو، یا فیس کا بدلنا ہو، یا پرائیوٹائزیشن  میں شدت ہو، یا کتابوں کے متون میں تبدیلی کا مسئلہ ہو، یا پھر دانشوروں کے ساتھ سلوک ہو، ان سب میں اس پالیسی اور اسے بنانے والی حکومت کا کارنامہ کچھ اچھا نہیں رہا ہے۔ تیسرا ترازو جوخود اس پالیسی اور اس پالیسی میں جن تنظیموں کی بات سنی گئی ہے  ہے اگر دیکھا جائے تہ وہ واضح طور پر نظر آتا ہے  کہ ایس سی ؍ایس ٹی، او بی سی اور اقلیتوں کے لئے الگ اہتمام جیسا کہ گزشتہ پالیسی میں پایا جاتا ہے اس میں مفقود ہے۔ 

نتیجہ لیتے ہوئے تجزیہ کار نے تیسرے تجزئیے کو ترجیح دی اور کہا کہ ہم ایک تعلیمی بحران کی طرف بڑھتے چلے جارہے ہیں جیسا کہ کچھ دانشور بھی اس کی طرف اشارہ  کر رہے ہیں۔
اور انہوں نے کہا کہ ہم طالب علم  جن کا تعلق تعلیم و تربیت سے ہے، یہ سب سے پہلے ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ آج کے زمانے میں ہم اس طرح کی اہم پالیسی کے بنانے میں کچھ کردار ادا کرپاتے جیسے کہ مسلمان عالم دین اور دانشوروں نے ۱۹۶۵ تک اس کردار کو بخوبی نبھایا تھا اور ملک کی تعلیمی حالت کو بحران سے نکالا تھا۔ ہم طالب علموں کو پھر سے کمر کسنے کی ضرورت ہے اور تعلیمی نظام کے حوالے سے اپنے دینی مبانی اور بنیادوں کو حوزے میں تقویت کرتے ہوئے اس ماڈرن دنیا کے تعلیمی نظامات کا بھی سنجیدہ مطالعہ کرنا چاہئے اور تعلیمی نظام میں ایک نئی مثال قائم کرنے کا عھد کرنا چاہئے ۔ 

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .